![](https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhz_9IY08OcQHGR_REJq78HZdEgZlZDMehAqRMIxKXirsJV_WE9pYqBzfHYeEETiOd2lJV-f_4N5gohAWsF1hPWhCinlcfjQOc8K4cbW5IUtz1nPRct4zgVgs_8s5bMEjx8P-BaYeMJuJiO/s320/j.gif)
گرتے ہیں شہسوار ہی میدان جنگ میں
سکول چھوڑ کے مدرسہ پہنچا اور ماحول سے کچھ مانوس ہوا تو دینی سرگرمیوں کے حوالے سے کانوں میں آوازیں پڑنا شروع ہوئیں غالب حصہ سپاہ صحابہؓ پاکستان متعلق ہوتا ، جماعت کے جلسے جلوس قائدین کی تقریریں اور ان میں پائے جانے والے جوش و جذبے اور رافضیت سے متعلق پیش کئے جانے والے مواد پر مذاکرہ اور بحث و مباحثہ مختلف فارغ اوقات میں سننے کا موقع ملتا مدرسہ کی نمایاں دیوار پر کانفرنس کے اشتہار چسپاں ہوتے ، مختلف مقامات پر جھنڈے لہراتے نظر آتے ، رھائشی کمروں اور درسگاہوں کے دروازوں اور کھڑکیوں پر اسٹیکر لگے ہوتے اور جماعت سے ذہنی وابستگی رکھنے والے طلبہ کے سینے بیجوں سے سجے ہوتے اس ماحول اور فضاء کا دل و دماغ پر اثر پڑنا فطری تھا چنانچہ راقم بھی غیر شعوری طور پر جماعت اور اس کی سرگرمیوں سے متعلق جستجو کرنے لگا۔ بانی جماعت امیر عزیمت مولانا حق نواز جھنگوی ، مولانا ایثار قاسمی تو بندہ کے مدرسہ داخل ہونے سے پہلے ہی شہادت کے درجہ پر فائز ہوچکے تھے اور یوں انکی زیارت ، بیانات اور صحبت سے محروم ہو گیا البتہ دیگر قائدین کے اسمائے گرامی ، مناصب اور علمی وعملی مقام و مرتبے سے رفتہ رفتہ شناسائی ہوئی پھر جامعہ عبداللہ بن مسعود خانپور کے سالانہ اجتماعات میں مرکزی قائدین کے بیانات سننے کا وقتاً فوقتاً موقع بھی ملا مرکزی قیادت میں ہر ایک شخصیت سے متعلق مختلف توصیفی تبصرے سننے کو ملتے جن کا پھر مشاہدہ بھی کیا چنانچہ مرکزی حضرات میں ایک فرد سے متعلق یوں کہا جاتا کہ بڑے لحیم و شحیم ہیں بارعب شخصیت ہے کالی پگڑی پہنتے ہیں جس سے ان کے رعب ووقار میں مذید اضافہ ہو جاتا ہے۔ تقریر علمی کرتے ہیں ، بلا کا حافظہ پایا ہے ، دلائل کے انبار لگادیتے ہیں اور ایسے ایسے علمی نکات پیش کرتے ہیں کہ علماء اور عوام عش عش کر اٹھتے ہیں اور جوش میں آکر یوں نعرہ لگاتے ہیں "تیرا شیر میرا شیر علی شیر علی شیر "۔
پھر جب حضرت اقدس علی شیر حیدری (جنہں شہید کہتے ہوے قلم کپکپا رہا ہے دل ماننے کو تیار نہیں ہو رہا لیکن حقائق سے انکار کیونکر ہوسکتاہے) کو دیکھا اور تقریر سنی تو ایسے مذکورہ بات تبصرے کا سو فیصد مصداق پایا یہ تو یاد نہیں کہ ان کی پہلی زیارت کب کی اور ان کا پہلا بیان کس سن میں سنا البتہ اتنا ضرور یاد ہے کہ یہ سعادت جامعہ عبداللہ بن مسعودؓ خانپور کے سالانہ اجتماع میں ہی حاصل ہوئی پھربارہا یہ مواقع ملتے رہے جسکی صورت یہ ہونے لگی کہ دسیوں میٹر دور سے ہی حضرت کی زیارت ہوتی اور اتنے ہی فاصلے پر بیٹھ کر ان کا ولولہ انگیز بیان سنا جاتا راقم چاہتے ہوئے بھی دیگر مرکزی قائدین کی طرح حضرت کے قریب نہ جاتا تھا کیوںکے ھجوم اور بھیڑ میں گھس کر اور بندے لتاڑ کر قائدین تک پھنچنا طبعیت گوارہ نہیں کرتی تھی اور نہ آج تک گوارہ کرتی ہے البتہ تین بار حضرت کو دیکھنے پاس بیٹھنے انکی باتیں سننے اور گفتگو کرنے کاموقع ملا پہلی بار جب بندہ جامعہ دارالھدی ٹھیڑی خیرپور میں دورہ حدیث میں شریک تھا یاد رہے کہ حضرت حیدری بھی اندرون سندھ اسی معروف درسگاہ کے فاضل تھے اور انہیں یگانہ روزگار اساتذہ کرام سے استفادے کا موقع ملا جن میں راقم کے شیخ استاذ الاساتذہ والصلحاء حضرت اقدس مولانا مفتی غلام قادر میمن نمایاں تھے دوران سال جماعت کے قریبی ساتھیوں نے جمعرات کے روز حضرت حیدری کی زیارت اور ملاقات کی ترتیب بنائی ، چنانچہ عصر کے بعد دیگر رفقاء کے ساتھ حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے معانقہ و مصافحہ کے بعد مغرب تک حضرت کی خدمت میں رہے ، مختلف حوالوں سے گفتگو ہوئی جو اب یاداشت میں محفوظ نہیں ہے دوسری مرتبہ شیخ الحدیث جامع المعقول والمنقول حضرت اقدس مولانا غلام محمدکلاب ہیں والوں کے مدرسہ میں ختم بخاری کی تقریب تھی چونکہ میرے رفیق درس مولوی رفیق ناریجو کے برادر صغیر کی بھی اسی تقریب میں دستار بندی ہوئی تھی اس لئے ان کے اصرار پر بندہ وصیت میں وہاں حاضر ہوا مرکزی مقرر حضرت حیدری ہی تھے جو حضرت مولانا غلام محمد کے محبوب شاگرد تھے تقریب کے اختتام کے بعد مہمان خانہ میں نمایاں علماء کرام جمع ہوے جن میں مولانا غلام محمد ، مولانا حیدری ، مولانامفتی شیخ حبیب اللہ صدر مفتی و شیخ الحدیث جامعہ اسلامیہ ، کلفٹن سرفہرست تھے راقم بھی اس مجلس میں رہا کسی ایک موضوع پر مزاکرے کاسلسہ چل نکلا حضرت حیدری سمیت مجلس میں موجود جید علماء کرام بحث میں شریک رہے البتہ آخر میں مولانا غلام محمد نے بھت دھمے مگر انتہائی جامع ومانع الفاظ میں اپنی رائے ظاہر کی اور مجلس برخاست ہو گئی۔
تیسری ملاقات 12 شعبان1429ھ بمطابق 13 اگست 2009ءبروز جمعرات بعد صلاة ظہر ہوئی راقم بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب خیر پور میرس پہنچا صبح اپنے شفیق استاد حضرت اقدس مولانا عزیزالرحمن عباسی سابق استاد الحدیث جامعہ دارالھدی ٹھٹیری سے رابطہ ہوا تو انہوں نے کہا کہ میں دو گھنٹے کے اندر خیر پور پہنچ رہا ہوں چنانچہ 12 بجے اپنے میزبان مولانا نور حسن بروہی کے برادر صغیر کے ہمراہ جامعہ حیدریہ پہنچا تو معلوم ہوا کہ حضرت آرام فرمارہے ہیں ڈھائی بجے ظہر کی نماز کے لئے تشریف لائیں گے تو ملاقات ہو سکے گی بندہ وہاں سے واپس لوٹا تو استاذ مکرم مولاناعزیزالرحمن تشریف لاچکے تھے چنانچہ تین گھنٹے حضرت کی خدمت میں گزارے چونکہ حضرت الاستاذ مدظلہ حضرت حیدری سے ملاقات کروانے کے لئے بخوشی تیار تھے اس لئے انہی کی معیت میں جامعہ حیدریہ جانا ہوا حضرت سے معانقہ ومصافحہ کے بعد راقم نے اپنی دو تالیفات "اسلامی نظام خلافت اورہماری ذمہ داری" اور "عصر حاضر میں غلبہ دین کا نبوی طریقہ کار" حضرت کو پیش کیں۔ حضرت نے فہرست اور درمیان سے سرسری طور پر مضامین دیکھے پھر بندہ نے ان دونوں کی وجہ تالیف اور پس منظر عرض کرنے کے بعدرفقاء کار کی طرف سے کراچی اور خانپور میں منعقد کئے جانے والے اسلام اور عصر حاضر کورس (جس میں عصرحاضر کے حوالے سے دیگر اہم موضوعات کے علاوہ مرکزی موضوع اسلامی نظام کاتعارف اسکی ضرورت اور اہمییت اور اسکی تشکیل کا نبوی طریقہ کار ہوتا ہے اور دیگر باطل نظاموں سے اس کاتقابل وموازنہ بھی پیش کیا جاتاہے)کا تعارف کروایا اور گذشتہ تین سالوں کی مختصر کارگزاری بھی سنائی حضرت نے پوری توجہ کے ساتھ بندہ کی گزارشات سننے کے بعد فرمایا کہ آپ سے پہلے سے تعارف نہیں تھا ورنہ ہمارے ہاں جو تقابل ادیان کورس ہوتا ہے اس میں آپ کو بھی بلالیا جاتا اور آپ بھی طلبہ کو یہ کورس کروا دیتے چلو آئیندہ آپ آئیں تو ترتیب بنالیں گے۔ تقریبا ڈیڑھ گھنٹا حضرت کی صحبت میں رہنے کے بعد اجازت لیکر واپس آیا اور حضرت الاستاذ اور اپنے میزبان کا شکریہ اداء کر کے گھر کے لئے روانہ ہو گیا اتوار اور پیر کی درمیانی شب محو خواب تھا کہ موبائل فون پر پیغام ملا کہ حضرت حیدری کو شہید کر دیا گیا ہے۔ یقین نہیں آرہا تھا دعائیں کرتا رہا کہ یہ خبر جھوٹی ہو ، صبح فجر کے فورا بعد ایک دوست سے رابطہ ہوا تو انہوں نے بھی اس حادثہ کی تصدیق کی تو دماغ چکرا کہ رہ گیا اور ایسے لگا کہ آسمان سے بجلی اوپر آکر گری ہو دل یقین کرنے کو تیار نہیں ہورہا تھا لیکن کیا کیا جاتا کہ دلی جذبات سے حقیقت تبدیل نہیں ہوا کرتی آخری بار ملاقات کے دوران اور اس کے بعد اس بات کا احساس ہرگز نہ تھا کہ حضرت اس قدر جلد جام شہادت نوش فرما کر فانی دنیا سے رخصت ہو کے آخرت کو سدھار جائیں گے حضرت کی شہادت کی خبر سننے کے بعد سے ان سطور کے راقم ہونے تک آخری ملاقات کاایک ایک منظر آنکھوں کے سامنے گھوم رھا ہے وہ ہنستامسکراتا نورانی چہراجب آنکھو ں کے سامنے آتاہے تو دل میں ایک ٹیس سی اٹھتی ہے کہ صد افسوس کلمہ کے نعروں کی گونج میں قائم ہونے والے ملک اور اسلامی نظام کے نفاذ کے لئے حاصل کی جانے والی ریاست کے اندر گزشتہ باسٹھ سالوں کے دوران ان جیسے کتنے جید علماء کرام ، مستند فقہاء عظام ، مشائخ ، مصلحین ، داعیوں اور دین اسلام کے تحفظ ، بقاء ، اشاعت اور اس کے غلبہ کے لئے ہمہ تن مصروف کار مفکروں اور محرکوں کو گولیو ں سے بھون ڈالاگیا ، ماورائے عدالت قتل کیا گیا ، ہتھکڑیاں اور بیڑیاں پہنائی گئیں ، جیلوں میں ڈالا گیا ، تشدد کا نشانہ بنایا گیا ، ان کا استہزاء کیا گیا ، مولویوں کے نام پر دین کا استحقار و استقباح کےا گے ، شعائراسلام کی توہین کی گئی ، دینی مدارس اور مساجد میں چھاپے مار کر انتظامیہ کو ہراساں اورخوفزدہ کرکے دینی علوم کی تعلیم وتعلم کے عظیم سلسے کو بند کرنے کی ناپاک کوشیشیں کی گئیں ، یہ اھل مدارس ومساجد کے لیئے لمحہ فکریہ ہے کہ وہ اس کے ازالے کے لئے بھر پور منظم اور متفق ومتحدہ کوششیں کریں اس کے ساتھ اطمنان بخش بات یہ ہے کہ مذکورہ تمام مزموم مساعی کے باوجود آئمہ ، خطباء اور مبلغین موجود ہیں اور مساجد آ باد ہیں۔ علماء ، فقہاء حق پر ڈٹے ہوئے ہیں اور مدارس کی رونقیں بڑھ رہی ہیں صلحاء و اتقیاء اپنا کام کر رہے ہیں اور خانقاہیں اذکار اور اوراد سے اور اللہ اللہ، ہو ہو کے نعرہء مستانہ سے گونج رہی ہیں اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ دشمنان اسلام سمجھ لیں کہ اھل اسلام کو شہید کرنے سے نہ تو اسلام ختم ہو گا اور نہ ہی اسلامی تعلیمات کے تعلیم وتعلم کا سلسلہ رکے گا اور نہ دین اسلام کی بقاء تحفظ اشاعت و تبلیغ اور اس کے غلبے کے لئے جدوجہد کرنے والا یہ قافلہ راستے سے پیچھے ہٹے گا نہ منزل تبدیل کرے گا اور نہ مقصد ومشن کو چھوڑے گا۔
حضرت حیدریؒ کی صفات و خوبیوں کردار وخدمات اور ان کی زندگی کے مختلف نقوش اور پہلوؤں کو تو وہی حضرات زیادہ واضح اور روشن کر سکیں گے جنہوں نے ایک عرصہ تک ان کی رفاقت کی سعادت حاصل کی اور برسوں ان کی صحبت میں رہ کر انکی حیات کے مختلف گوشوں کا مشاہدہ کیا ہو البتہ راقم ایسی باتیں ذکر کرے گا جو اس کے مشاہدے میں آئیں یا اس نے محسوس کیں:
حضرتؓ کی سب سے بڑی خوبی اپنے مقصد اور مشن سے عشق کی حد تک وابستگی تھی وہ سندھ میں حضرت امیر عزیمت کی صداء پر لبیک کہنے والے اولیں لوگوں میں سرفہرست تھے مشن جھنگوی کوقبول کرنے کے بعد پورے پاکستان عموما اور سندھ میں خصوصا اس جدوجہد میں پیش پیش تھے۔ کراچی اور اندرون سندھ انہوں نے جس موئثر انداز میں ناموس صحابہؓ کے تحفظ کی ضرورت اور اہمیت کو لوگوں کے سامنے پیش کیا وہ انہیں کا حصہ تھا اندرون سندھ شہر شہر اور قصبے قصبے دورے کرکے آپ نے اس مشن کی طرف لوگوں کو بلایا یہی وجہ ہے کہ پورے پاکستان کے وابستگان جماعت تو آپکے گرویدہ تھے آپ نے یہ مشکل ترین راستہ سوچ سمجھ کے اختیار کیا تھا یہی وجہ ہے کہ کٹھن سے کٹھن ترین حالات میں بھی اس سے پیچھے نہیں ہٹے امیر عزیمت سے لیکر مولانا محمد اعظم طارق شہید تک مرکزی اور مقامی حضرات کی زندگیاں اور انکی شہادت کے سانحات آپکے سامنے تھے لیکن آپ اپنے مشن پر ڈٹے رہے بلکہ یکے بعد دیگرے مرکزی قائدین کی شہادت سے آپ میں مذید پختگی آ گئی(آپکو اس بات پر پختہ یقین تھا کہ یہ ایسے سیلان کارزار ہے جس کے شہسوار داد شجاعت دیتے ہوئے حق کی فتح کے لیے گر کر لازوال وابدی حیات کے لیے سربلند ہو جاتے ہیں چنانچہ آپ نے نہ صرف شہسواری بلکہ سپہ سالاری کے جوہر دیکھاتے ہوے جام شہادت نوش کیا ہے)۔ قاتلانہ حملے ہوے ، جان سے مارنے کی دھمکیاں ملیں ، جھوٹے مقدمات بنائے گئے ، ہتھکڑیاں پہنائی گئیں ، جیلوں میں قید رکھا گیا ، تشدد کیا گیا ، لیکن آپ تادم واپیس جماعت سے وابستہ رہے بلکہ بانی جماعت کی شہادت کے بعد رفتہ رفتہ آپ کی سرگرمیوں اور ذمہ داریاں بڑھتی گئیں تاآنکہ مولانامحمداعظم طارق کی شہادت کے بعد آپ ہی کو سرپرست اعلی کی ذمہ داری تفویض کی گئی جسے آپنے نہ صرف بحسن خوبی نبھایا بلکہ نبھانے کا حق ادا کر دیا پوری جماعت کی ذ مہ داری آپکے کاندھوں پر اس وقت پڑی جب جماعت اپنی تاریخ کے مشکل ترین دورسے گزر رہی تھی لیکن آپ اپنی خداداد صلاحیتوں کی بناء پر اس سے سرخرو ہوکر نکلے۔
آپ کی دوسری بڑی خوبی یہ ہے کہ آپ اس دور کی عظیم علمی شخصیت تھے خصوصاَرافضیت کے بارے میں تو آپکو سند کا درجہ حاصل تھا یہ آپ کا خصوصی موضوع تھا جس کے تقریبا تمام پہلئوں پر آپکو عبور حاصل تھا آپ عوامی جلسے کو خطاب کر رہے ہوتے یاجامعہ حیدریہ یا کسی دیگر مدرسہ میں مناظرہ پڑھارہے ہوتے عمومی مجلس میں اظہار خیال کررہے ہوتے یا کسی سرکاری میٹینگ میںجماعت کے مئوقف کی وکالت کر رہے ہوتے تو دلائل کے انبار لگادیتے اور ایسے ایسے علمی نکات بیان کرتے کہ سننے والا دنگ رہ جاتا عوام تو عوام خواص بھی علماء کرام بھی انگشت بدندان رہ جاتے کہ اس قدر دلائل کہاں سے لارہے ہیں(جیسا کہ عرض کیا جاچکا ہے مدرسہ کلاب میں ختم بخاری کی تقریب کے بعد خصوصی مجلس میں حضرت حیدریِ بھی شریک تھے تو آپ نے بھی موضوع زیر بحث میں بھر پور حصہ لیا تب بندہ پر یہ بات منکشف ہوئی کہ حضرت نہ صرف اپنے خصوصوصی موضوع پر عبور رکھتے ہیں بلکہ مضبوط اور مدلل رائے بھی رکھتے ہیں)۔ حضرت مطالعہ کے انتہائی رسیاتھے البتہ ذیادہ تر اپنے پسندیدہ موضوع ہی پڑھتے اسی طرح آپ تدریس کے بھی بادشاہ تھے اور اس میں انفرادی شان رکھتے تھے کانفرنسوں جلسوں اور جماعتی سرگرمیوں کے علاوہ فارغ اوقات میں اپنے زیر اہتمام مدرسہ میں ہی قیام ہوتا اور درسی کتب کی تدریس کے علاوہ ایک سالہ تقابل ادیان (تقابل مذاہب ومسالک ذیادہ مناسب ھے) میں آپ خصوصی طور پر پڑھاتے اور پورے پاکستان کے مختلف علاقوں سے طلباء ، نوجوانوں فضلاء ، آپ ہی سے استفادے کے لیے حاضر ہوتے نیز شعبان کی چھٹیوں میں٠٢ ۲۰روز پر مشتمعل مختصر سا دورہ تقابل ادیان کے شرکاء کوبھی آپ مستفید فرماتے تھے انہی علمی صلاحیتوں کی بناء پر وقت کے جید علماء کرام نے آپکی بلندعلمی حیثیت کو تسلیم کیا اور کھلے بندوں اس کا اعتراف کیا ۔
آپ کی تیسری بڑی خوبی سنجیدگی سادگی اور بے تکلفی ہے بندہ نے مذکورہ ملاقاتوں میں انہیں سنجیدہ گفتگو کرتے ہوے دیکھا کام کی بات کہتے اور سنتے تھے چنانچہ آپکے اسی مزاج کے پیش نظر جماعت کے ارکان اور معتقدین بھی کام کی بات ہی کرتے تھے اسی طرح سادگی اور بے تکلفی آپکی زندگی کا خاصہ تھی آپ صاف ستھرا رہنے کے باوجود سادہ پہنتے اورکھاتے تھے ملک کی ایک بڑی مذہبی جماعت کے سربراہ ہونے کے باوجود قومی لیڈروں کے سےکروفر اور پر تکلف زندگی سے آپ کوسوں دور تھے۔ آپ سادگی اور بے تکلفی کے باوجودبارعب ، باوقار اور انتہائی متین شخصیت کے مالک تھے۔ مذکورہ اور ان جیسی بے شمار خوبیوں کے باوصف آپ عوام و خواص میں یکساں مقبولیت کے حامل تھے۔ چنانچہ آپ کی جدائی سے ہر دو طبقے رنجیدہ و غم زدہ ہیں اسمیں کوئی شک نہیں کہ دین اسلام کے تحفظ و بقاء ، تبلیغ و اشاعت اور غلبے کے لئے اللہ تعالیٰ تاقیامت ہر دور کے تقاضے کے مطابق رجال کار پیدا فرماتے رہیں گے جو جملہ علمی و عملی اوصاف کے حامل ہونے کے باوصف دین کے لئے جان ، مال ، اور فانی زندگی کے قیمتی لمحات صرف کرتے رہیں گے (انشاءاللہ) لیکن حضرت حیدریؒ جیسی شخصیتوں کے چلے جانے سے جو خلاء آتا ہے وہ بڑی مشکل سے پورا ہوتا اور بہت دیر سے ایسی شخصیات دنیا میں آتی ہیں۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ حیدریؒ کی حسنات کو قبول فرما کر اپنے ہاں اعلیٰ مقام و مرتبہ عطاء فرمائے اور ان کے نسبی ، روحانی اور تنظیمی وابستگان کو ان کے نقش قدم پر چلاتے ہوئے جرأت ، استقامت ، عزیمت ، ایثار اور قربانی کے ساتھ ان کے مشن کو آگے بڑھانے کی توفیق عطاء فرمائیں ۔ آمین یا رب العالمین۔
تحریر مولانا زاہد اقبال مدظلہ
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق