الخميس، 27 أغسطس 2009

قرار داد ہائے پاس شدہ بتاریخ 14 اگست بمقام جامعہ حیدریہ خیر پور زیر صدارات علامہ علی شیر حیدری دامت برکاتہم





























الثلاثاء، 25 أغسطس 2009





حضرت مفتی محمد تقی عثمانی اورحضرت مفتی رفیع عثمانی کے تعزیتی خط










علامہ علی شیر حیدری رح


علامہ علی شیر حیدری کی شہادت ' ملک دشمنوں کی خوفناک سازش



علامہ علی شیر حیدری کی شہادت ' ملک دشمنوں کی خوفناک سازش
سپاہ صحابہ کے سربراہ علامہ علی شیر حیدری خیرپور سندھ میں ایک جلسے سے واپس آرہے تھے کہ مسلح افراد نے فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں علامہ علی شیر حیدری ایک ساتھی سمیت شہید ہوگئے۔ ان کی شہادت کے بعد کراچی ' حیدر آباد ' جھنگ ' سکھر ' چیچہ وطنی ' گلگت ' مانسہرہ ' ایبٹ آباد اور ملک کے کئی شہروں میں پرتشدد مظاہرے ہوئے جس کے نتیجے میں تین افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے۔ خیرپور سندھ میں رینجرز طلب کی گئی ہے۔ خیرپور میں علامہ علی شیر حیدری کی شہادت کے بعد مظاہرین نے خیرپور سے پنجاب سمیت ملک کے دیگر علاقوں کو کراچی سے ملانے والی مرکزی ریلوے پٹڑی پر احتجاجی دھرنا دیا جس پر پولیس اور رینجرز نے مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے فائرنگ کر دی جس سے دو افراد جاں بحق ہوئے۔ یہ بات قابل غور ہے کہ جب سے سپاہ صحابہ قائم ہوئی اس وقت سے لے کر اب تک تمام سربراہوں کو یکے بعد دیگرے شہید کر دیا گیا۔ سپاہ صحابہ کے پہلے سربراہ مولانا حق نواز جھنگوی ' علامہ ضیاء الرحمن فاروقی ' مولانا ایثار القاسمی اور مولانا اعظم طارق سمیت درجنوں چھوٹے بڑے رہنمائوں کو منظر عام سے ہٹادیا گیا لیکن آج تک ان علماء کے قاتلوں کو کیفرکردار تک نہیں پہنچایا جاسکا اور اب علامہ علی شیر حیدری کو شہید کرکے ملک دشمنوں نے پھر سے فرقہ وارانہ فسادات کی آگ بھڑکانے کی سازش کی ہے۔ مولانا علی شیری حیدری ممتاز عالم دین کے ساتھ ساتھ شعلہ بیاں مقرر اور ایک نیک سیرت انسان تھے۔ مولانا حق نواز کی شہادت کے بعد علامہ علی شیر حیدری کو کالعدم سپاہ صحابہ میں ممتاز حیثیت حاصل ہوئی تھی کیونکہ وہ مولانا حق نواز جھنگوی کے ابتدائی ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے۔ علامہ علی شیر حیدری نے اپنی زندگی تبلیغ دین کیلئے وقف کر رکھی تھی انہوں نے قیدوبند کی اذیتیں بھی جھیلیں۔ یقینا علامہ علی شیر کی شہادت سے ملک ایک نامور عالم دین سے محروم ہوا ہے۔ علی شیر حیدری کالعدم سپاہ صحابہ کے پانچویں بڑے رہنما ہیں جو دہشت گردی کی نذر ہوئے۔ یہ ایک حقیقت ہے پاکستان کو اس وقت بہت سے اندرونی اور بیرونی دشمنوں کا سامنا ہے جو ملک کو ہر سطح پر غیر مستحکم کرنے کیلئے سرگرم عمل ہیں۔ دشمن ہر سطح پر سازشیں کرنے میں مصروف ہے اور ملک کو ایک بار پھر فرقہ وارانہ کی آگ میں دھکیلنا چاہتے ہیں۔ ملک دشمن عناصر نے ایک عرصے سے مختلف مکاتب فکر کے علمائے کرا م کو شہید کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہے تاکہ ملک میں افراتفری پیدا ہو اور ملک عدم استحکام سے دوچار ہو جائے۔ حالیہ عرصے میں لاہور میں علامہ سرفراز نعیمی کی شہادت اور اب سندھ میں علامہ علی شیر حیدری کی شہادت اسی خوفناک سازش کی کڑیاں ہیں ۔لیکن سوال یہ ہے کہ حالیہ برسوں میں تسلسل کے ساتھ مختلف مکاتب فکر کے علماء کو شہید کیا جارہا ہے اور ان کے قاتلوں کو سزا اور جزا کے عمل سے نہیں گزارا گیا اور نہ ہی حکومتوں کی طرف سے یہ بات سامنے لائی گئی کہ ان جید علماء کرام کے قتل میں کون لوگ ملوث ہیں۔ مفتی نظام الدین شامزئی ' مولانا یوسف لدھیانوی ' مولانا عبداللہ ' علامہ اعظم طارق ' ضیاء الرحمن فاروقی ' ' علامہ حسن ترابی ،علامہ سرفراز نعیمی ' ڈاکٹر مرتضیٰ ملک جیسے جید علماء کرام کو شہید کیا گیا لیکن آج تک ان کے قاتلوں کو منظر عام پر نہیں لایا گیا اور نہ ہی اس سازش کو طشت از بام کیا گیا کہ وہ کون سے عناصر ہیں جو ملک خداداد میں علماء کرام کو شہید کرکے فرقہ وارانہ فسادات کروانا چاہتے ہیں اس سے قبل تو صرف بریلوی ' دیلوبندی اور سنی شیعہ فسادات کی سازشیں ہور ہی تھیں لیکن اب ملک دشمن عناصر اس قدر دلیر ہوچکے ہیں کہ انہوں نے دو قدم آگے بڑھ کر مسلم عیسائی فسادات کرنے کی بھی کوششیں شروع کر دیں ہیں۔ سانحہ گوجرہ اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ ایک منظم سازش کے تحت فرقہ وارانہ فسادات کا ماحول ترتیب دیا گیا۔پاکستان گزشتہ ایک عرصے سے سیاسی رہنمائوں اور علماء کرام کی شہادتوں کے حوالے سے خاصی شہرت حاصل کرچکا ہے۔ بے نظیر بھٹو جیسی عالمی لیڈر کو دن دیہاڑے لیاقت باغ راولپنڈی میں شہید کیا گیا ان کے قاتلوں کا ابھی تک سراغ نہیں لگایا جاسکا۔ مولانا اعظم طارق کو وفاقی دارالحکومت کی مصروف ترین شاہراہ پر شہید کیا گیاان کے قاتلوں کا بھی ابھی تک کچھ پتا نہ چل سکا۔ جس ملک کی دو دفعہ وزیراعظم رہنے والی عالمی رہنما بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کو ابھی تک گرفتار نہیں کیا جاسکا وہاں مختلف مکاتب فکر کے علماء کرائے کو شہید کرنے والوں کے چہروں سے نقاب کون اتارے گا۔ ملک دشمن عناصر کی اب یہ کوشش ہوگی کہ علامہ علی شیر حیدری کی شہادت کی ذمہ داری مخالف فرقے پر ڈال کر فرقہ وارانہ فسادات کرائے جائیں ۔ یہ بات اطمینان بخش ہے کہ شیعہ 'سنی ' دیوبندی ' بریلوی اور تمام اہل وطن اس بات سے آگاہ ہیں کہ علماء کرام اور سیاسی قیاد ت کی شہادتوں کے پیچھے وہ طاقتیں ملوث ہیں جو اس ملک کا استحکام نہیں چاہتی۔ عوام اب یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ جس ملک میں جید علماء کرام ' نامور سیاستدان کو کوئی تحفظ حاصل نہیں وہاں عام عوام کو حکومت کس طرح تحفظ فراہم کرے گی۔ افغانستان سے طالبان کی حکومت کے خاتمے کے بعد پاکستان دشمن طاقتوں نے افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنا شروع کر رکھا ہے۔ اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد ہو یا بھارت کی خفیہ ایجنسی ''را'' سب پاکستان دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں شورش ہو ' گوجرہ میں مسلم عیسائی فسادات ہوں یا علماء کرام کو شہید کرنے کا سلسلہ ہو ان تمام عوامل کے پیچھے پاکستان اور اسلام دشمن طاقتوں کا ہاتھ ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ان سازشوں کا ادراک کرتے ہوئے علماء کرام کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچا کر ملک کو فرقہ واریت اور عدم استحکام سے دوچار کرنے کی سازشوں کو ناکام بنائے۔ ہم سمجھتے ہیں ہیں کہ علامہ علی شیر حیدری کی شہادت سے جو خلاء پیدا ہوا ہے اس کو پر کرنے میں ایک عرصہ لگے گا یقینا علامہ علی شیر حیدری جیسے جید علماء کرام صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ ہم رب کائنات سے دعاگو ہیں کہ علامہ علی شیر حیدری کے پسماندگان اور ان کے چاہنے والوں کو صبر جمیل اور ان کی شہادت کو قبول فرمائے۔ آمین

علامہ علی شیر حیدری رح











علامہ علی شیر حیدری رح